زندگی کا فشار بھی کم ہے

زندگی کا فشار بھی کم ہے
آج دل بے قرار بھی کم ہے
آگیا ہے بہت ہی یاد کوئی
آج تو انتشار بھی کم ہے
غمگسارانِ دل تو تھے ہی نہیں
کیا کوئی سوگوار بھی کم ہے
کچھ دنوں سے قرار بھی کم ہے
باغِ دل میں بہار بھی کم ہے
کچھ دنوں ہی سے دل کے وحشی پر
ذہن کا اختیار بھی کم ہے
جسم بیماریوں سے ہے محفوظ
روح کو غم کی مار بھی کم ہے
جانے کیوں تجھ سے جنگ میں مجھکو
جیب بھی کم ہے ہار بھی کم ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *