سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا

سمندر کی تہوں میں راستہ زندہ نہیں رہتا
زیادہ آنسوؤں میں سانحہ زندہ نہیں رہتا
تری بے اعتنائی میں اگرچہ اِعتنائی ہے
مگر یوں تو تعلق واسطہ زندہ نہیں رہتا
فراموشی بقائے ذات کا باعث بھی بنتی ہے
بھلانے سے کوئی بھی حادثہ زندہ نہیں رہتا
کہیں جا کے ہر اک گھاؤ مسیحائی میں ڈھلتا ہے
مسلسل رہروی سے آبلہ زندہ نہیں رہتا
اک ایسا دشت ہے ہر رہنما کے دل کی پستی میں
جہاں کوئی نہتّا قافلہ زندہ نہیں رہتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *