صبحِ ویراں کی قسم

صبحِ ویراں کی قسم
اتنا اجڑا ہوا دن کس نے سنا ہو گا بھلا
جس قدر روز مجھے دیکھنا پڑتا ہے یہاں
کیا ہم ایسے ہی دنوں کے لیے آئے ہیں یہاں
بے بسی کی بھی کوئی حد ہو گی
بے یقینی اگر آڑے آئے
کتنا کچھ سود و زیاں یاد رہے
ایک خاموش مسیحا ہے جو کچھ کر ہی نہیں پاتا ہماری خاطر
ایک بے چین نتیجہ ہے جسے کیا مانیں
آرزو خواب نہیں
آرزو خواب نہیں ہے کہ تجسس کے بغیر
ہجر کی آنکھ کو دھندلائے بنا لوٹ چلے
آرزو رات ہوا کرتی ہے
جو ہر اک لمحہ تڑپتی ہے سویرے کے لیے
آرزو لمبی مسافت کی طرح
آرزو بھٹکے ہوئے ایک مسافر کی طرح
راستے بیت بھی جائیں تو محبت کی مسافت کی خلش رہتی ہے
خواب کے شہر اجڑ جائیں تو اندازہ ہو
ہم تو تیرے لیے منزل سے پلٹ آئے ہیں
منزلیں تیرے مقابل تو یہی کچھ ہیں مری
ایسا کرتے ہیں کبھی شہر سے ویرانی خرید آتے ہیں
اپنی رونق کی کرنسی دے کر
ایسا کرتے ہیں کہیں سے کوئی
بے وجہ پھیلی ہوئی زرد اداسی ہی چرا لاتے ہیں
ایسا کرتے ہیں اٹھا لاتے ہیں یادیں دو چار
ایسا کرتے ہیں کسی درد سے مل آتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *