صدیوں کو رہیں صدیوں کے بدنام مبارک

صدیوں کو رہیں صدیوں کے بدنام مبارک
ہوتا ہے کہاں عشق کا انجام مبارک
اے یار دل آزار سر عام مبارک
مجھ کو مری گمنامی تجھے نام مبارک
اچھا ہے کوئی فرق نظر آئے ہمیشہ
لوگوں کو سحر اور مجھے شام مبارک
شاید کہ اسی سے کوئی راستہ نکل آئے
اے ہم نفسو درد کا پیغام مبارک
راتوں کی ریاضت ہے مری، نیند ہے تیری
مجھ کو یہ مرا، تجھ کو ترا کام مبارک
آباد دیاروں کے خداوند تجھے ہوں
اجڑے ہوئے شہروں کے دروبام مبارک
ہم کو تو کبھی راس نہیں آئیں یہ گلیاں
اے عرض تجھے قریہ الام مبارک
فرحت تجھے یہ سلگا ہوا، مہکا ہوا دل
اجڑی ہوئی چاہت کا یہ انعام مبارک
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *