کبھی آنسو بن کے برستی رہتی ہیں بارشیں

کبھی آنسو بن کے برستی رہتی ہیں بارشیں
کئی سال آ کے اتر گئے ہیں بدن کے سوکھے درخت پر
جہاں چھال چھال پہ جھُرّیوں کا لباس ہے
جہاں شاخ شاخ پہ بندگی کی تھکن لٹکتی دکھائی دیتی ہے دور سے
جو پرندے رہتے تھے دل میں باقی نہیں رہے
یہ عجیب گھونسلہ کب سے خالی ہے پیڑ پر
کبھی آ کے تیز ہوائیں سر کو جھکا گئیں
کبھی پانیوں نے جڑوں میں رخنے بنا دیے
کبھی کوئی کاٹ کے لے گیا ہے، کہیں کہیں سے وجود کو
کبھی کوئی توڑ کے رکھ گیا ہے کہیں کہیں سے نمود کو
کبھی کوئی رُت کبھی کوئی رُت
کبھی آئی رات، بہار کی تو سبھی جمود بہا گئی
کبھی آ ئی رات خزاؤں کی تو پلک جھپکنے میں ریشہ ریشہ سما گئی
کبھی برف گرتی ہے رات بھر
کبھی آنسو بن کے برستی رہتی ہیں بارشیں
کبھی آگ بن کے برستی دھوپ جلا گئی
کبھی دھول بن کے ہوا نقوش مٹا گئی
کوئی کیا بتائے کہ کیسے گزرا ہے وقت راہی و رخت پر
کوئی سخت جاں تھا
یا آپ گرتا رہا ہے اپنے ہی بخت پر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *