کبھی پہاڑ کبھی آسماں ہلاتے ہوئے

کبھی پہاڑ کبھی آسماں ہلاتے ہوئے
کٹی ہے عمر مری راستہ بناتے ہوئے
بسر ہوا تھا مرا دل ترے کنارے پر
میں رو پڑا ترے دریا کے پار جاتے ہوئے
سنور گئی تری تصویر میرے رنگوں سے
بدل گئے مِرے موسم تجھے سجاتے ہوئے
ہوا نہ کچھ بھی تجھے توڑتے ہوئے ماضی
جلے نہ ہاتھ ترے داستاں جلاتے ہوئے
نہ شہر یاد رہا ہے، نہ غم، نہ پاگل پن
بھلا دیا ہے بہت کچھ تجھے بھلاتے ہوئے
یہ اور بات کہ پھر بھی اٹھائے پھرتا ہوں
میں ٹوٹ پھوٹ گیا زندگی اٹھاتے ہوئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *