مجھ کو سوتے میں بھی اس بات کا ڈر کاٹتا ہے

مجھ کو سوتے میں بھی اس بات کا ڈر کاٹتا ہے
دشمن اب جسم نہیں میرا نگر کاٹتا ہے
ہم سے کہتا ہے کہ مہلک ہے اٹامک پاور
اور خود جن و ملک، شمس و قمر کاٹتا ہے
ٹیکس لگ جائے گا کچھ روز میں سانسوں پر بھی
یہ تصور ہی مرا دیدہِ تر کاٹتا ہے
اے مرے سنی مرے شیعہ سنبھل جا پیارے
اس قدر دھوپ میں آنگن کا شجر کاٹتا ہے
میرے شہروں پہ چڑھائے مری اپنی افواج
کتنی چالاکی سے دھرتی کا جگر کاٹتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *