نہیں جو میں، تو یہ کہنا ہے کیا، کہ تُو کیا ہے

نہیں جو میں، تو یہ کہنا ہے کیا، کہ تُو کیا ہے
مرے بغیر یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رکھے ہوئے ہے مجھے تیری یاد پاکیزہ
مری نماز کو اب حاجتِ وضو کیا ہے
یہ کون ہاتھ میں تقدیر لے کے پھرتا ہے
یہ کون پوچھتا پھرتا ہے آرزو کیا ہے
ذرا سا چونک کے کچھ مضطرب تو ہوں لیکن
کسی سے کوئی نہ پوچھے کہ گھر میں ہُو کیا ہے
اسی طرح سے اگر بے حسی میں بیت گئی
تو لوگ لوگوں سے پوچھیں گے، یہ لہو کیا ہے
نہ جاں عزیز نہ مال و منال باقی ہے
لُٹے لُٹائے کو اندیشہءعدُو کیا ہے
تڑپ رہا ہے کوئی مجھ میں اور پوچھتا ہے
سکوتِ سینہء ویراں میں آرزو کیا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *