ہم بھی کیا کیا کرتے تھے نادانی میں

ہم بھی کیا کیا کرتے تھے نادانی میں
شہر بسایا کرتے تھے ویرانی میں
رستے جیسے بھوک مٹانے نکلے ہوں
بینائی تک چاٹ گئے سنسانی میں
جب میں اپنا سب کچھ اس سے ہار گیا
موڑ اک ایسا آیا مری کہانی میں
کون آیا ہے رات گئے دروازے پر
کس کو کس سے ملنا ہے ویرانی میں
اس کو دیکھ کے آدھی باتیں یاد رہیں
آدھی باتیں بھول گئے حیرانی میں
آنسو اپنا آپ گنوانے لگتے ہیں
بارش رویا کرتی ہے جب پانی میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *