ہم ستاروں سے الگ رہتے ہیں

ہم ستاروں سے الگ رہتے ہیں
ہم ستاروں سے الگ رہتے ہیں
اور ملتے بھی نہیں ہیں ان سے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے جو مفتوح ہوئے
ہم وہ لشکر ہیں تھکے ہارے ہوئے
ہم کہ کترائے ہوئے پھرتے ہیں میدانوں سے
اتنی تعداد ہے پیشانیوں کی
سجدہ گاہوں سے مگر پھر بھی کم ہے
اور سجدے کہ نہیں ملتی جبینوں پہ کہیں
اک ذرا سی بھی جگہ
ہم کناروں سے الگ رہتے ہیں
آدھے ڈوبے ہوئے آدھے مدفون
ہم سہاروں سے الگ رہتے ہیں
چاٹتے ہیں در و دیوار کہ کچھ تھام سکیں
اپنی پتھرائی ہوئی بھوک سے کچھ تھام سکیں
چیختے رہتے ہیں آلات سماعت کے بغیر
سوچتے رہتے ہیں شاید کبھی ہم بھی شاید
اپنی ٹھٹھرائی ہوئی کوک سے کچھ تھام سکیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *