ہوا میں آگ لگے اور سبھی کے پر جل جائیں

ہوا میں آگ لگے اور سبھی کے پر جل جائیں
بچے نہ راکھ بھی یہ لوگ اس قدر جل جائیں
یہ کیسے لوگ ہیں زیرِ ظہورِ آتش دم
بچا رہے ہیں بدن چاہے سب کے سر جل جائیں
کبھی کبھی تو میں تھک ہار کے یہ سوچتا ہوں
یہ جو سفر کا پرندہ ہے اس کے پر جل جائیں
مرے بھی سینے پہ پتھر کے حاشیے اتریں
کہ میری بے حسی جاگے مرے بھی ڈر جل جائیں
لگی ہے آگ تو اب دیکھیں کون کون بچے
گمان یہ بھی ہے بستی کے سارے گھر جل جائیں
ہوس دبی ہی رہے راکھ میں تو بہتر ہے
ذرا سی بھڑکی تو ممکن ہے خشک و تر جل جائیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *