وہ کہتی ہے زمانے سے بہت بددل ہوئی ہوں میں

وہ کہتی ہے زمانے سے بہت بددل ہوئی ہوں میں
میں کہتا ہوں زمانے سے توقعات ہی کیسی
وہ کہتی ہے کہ فرحت میں زمانے بھر میں تنہا ہوں
میں اپنے نارسا اشکوں سے اس کا دل تھپکتا ہوں
وہ کہتی ہے مسلسل غم نے مجھ کو روند ڈالا ہے
مرے اعصاب میں پہلی سی اب طاقت نہیں فرحت
میں کہتا ہوں تمہیں معلوم ہے یہ رنج و غم کیا ہیں
یہ سرطانی جراثومے ہیں، انسانوں کی دیمک ہیں
مگر میں نے تو اپنے دل میں ان کی پرورش کی ہے
میں گھبرایا نہیں ان سے میں ڈھے پایا نہیں ان سے
میں کہتا ہوں تجھے بارش سے کیا کیا بات کرنی ہے
وہ کہتی ہے مرا ان بارشوں میں دل نہیں لگتا
اداسی گھیر لیتی ہے بہت بے چین رہتی ہوں
یہ موسم میری آنکھوں میں جدائی کھینچ لاتا ہے
وہ کہتی ہے کہ سینے کی گھٹن اب مار ڈالے گی
مجھے تو سانس لینا بھی بہت دشوار لگتا ہے
بہت ہی بے بسی سے میں یہ ساری بات سنتا ہوں
مری آنکھوں میں اشکوں کی قطاریں ٹوٹ جاتی ہیں
وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتی ہے۔۔۔سنو فرحت!
مجھے اب زندگی مشکل، اجل آسان لگتی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *