یاد ہے ہم کہ ترے عشق کی من مانی میں

یاد ہے ہم کہ ترے عشق کی من مانی میں
سر ہتھیلی پہ لیے پھرتے تھے نادانی میں
وہ تو پاؤں ہی لیے پھرتے ہیں ورنہ ہم کو
راستہ یاد نہیں رہتا پریشانی میں
اب کہیں چھاؤں نہیں ملتی کسی پیڑ تلے
اب کوئی عکس نظر آتا نہیں پانی میں
ہم اجڑ کے بھی ہیں آباد بہت یوں جاناں
اور کھل اٹھتی ہیں یادیں تری ویرانی میں
تم کھلے ماتھے ملو ہم سے تو دیکھو یہ بھی
کیسے مہتاب چمک اٹھتا ہے پیشانی میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *