یار بدنام بھی نہیں کوئی

یار بدنام بھی نہیں کوئی
ہم پہ الزام بھی نہیں کوئی
پھر یہ کیسا ہے آنکھ میں نشّہ
ہاتھ میں جام بھی نہیں کوئی
ہم بھی تھکتے نظر نہیں آتے
راہ میں شام بھی نہیں کوئی
آنکھ میں شکل بھی نہیں کوئی
یاد میں نام بھی نہیں کوئی
چھُپ کے بھی سامنے ہو تم جیسے
یوں سرِ عام بھی نہیں کوئی
دل بھی خالی ہے آج تو اور پھر
درد کو کام بھی نہیں کوئی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *