یہاں سب ایک جیسے ہیں

یہاں سب ایک جیسے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے
دن بدن بڑھتی ہوئی ویرانیوں کو کون روکے گا
گھروں میں بیٹھ کر بھی بے تحفظ ہیں
مگر تم ہو کہ اب بھی کھوکھلی امید کو سینے لگائے
ملک کی مٹی کو سونا
داغ کو بھی چاند کہتے ہو
سبب کیا ہے؟
میں بولا
اس میں مٹی اور وطن کا دوش کیا ہے
یہ تو ان سوداگروں کا کارنامہ ہے
جنہیں ماں، بہن، بیٹی جو بھی ہو سب بیچ کر
بس بنک بھرنے ہیں
سوئس بنکوں کے خفیہ گوشوارے
ملک کی ناموس قیمت سے زیادہ قیمتی ہیں ان کی نظروں میں
یہاں پر کون ایسا حکمراں آیا ہے
جس نے کچھ نہیں بیچا
یہ دھرتی کس قدر مظلوم ہے
کیونکہ یہاں حرص و ہوس میں سب کے سب ہی
ایک جیسے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *