حبیب اشعر دہلوی
بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے
بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے ساغر بادۂ گل رنگ تو کچھ دور…
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا حبیب اشعر دہلوی
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج وہی محرومی
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج وہی محرومی وہ جو اک تیری طرف سے تھا اشارا نہ رہا حبیب اشعر دہلوی
موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے
موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے زندگی کار گہ شیشہ گراں ہو جیسے دل پہ یوں عکس فگن ہے کوئی بھولی ہوئی یاد…
اے دوست عرض غم پہ نہ یوں مسکرا کے دیکھ
اے دوست عرض غم پہ نہ یوں مسکرا کے دیکھ اپنی نظر سے آپ گرا جا رہا ہوں میں حبیب اشعر دہلوی
اطلاعیه برای شاعران و نویسندگان
پایگاه اینترنتی شعرستان از همکاری همه شاعران و نویسندگان آماتور و حرفه ای از سراسر جهان استقبال میکند و مشارکت فعال آنها را خیر مقدم میگوید. شما میتوانید اشعار، مطالب معلوماتی و مقالات خویش را از طریق ایمیل و یا فرم تماس ارسال نماید. مطالب ارسالی در اولین فرصت مناسب منتشر خواهند شد