وہ میری آنکھوں میں

غزل
وہ میری آنکھوں میں پنہاں ہے خواب کے مانند
حقیقتاً ہے جو دل کش سراب کے مانند
نہیں پتا اُنھیں شاید ہَوا کی فطرت کا
سوار ہیں جو ہَوا پر حباب کے مانند
دیارِ حسن میں پھرتا ہوں میں سوال بدست
جواب چاہیے اِک لاجواب کے مانند
اُسی کے زیرِ اثر اب بھی ہیں مِرے جذبات
ہُوا تھا برپا جو اِک انقلاب کے مانند
بہ حسن و خوبی وہ ڈھلتے ہیں سارے سانچوں میں
وہ لوگ جن کی طبیعت ہے آب کے مانند
فریفتہ ہوں کسی کی میں صاف گوئی پر
مزاج جس کا ہے علمِ حساب کے مانند
مارچ ۲۰۱۳ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *