ملنے چلے ہو بغض و

غزل
ملنے چلے ہو بغض و کدورت کے باوجود
قائم رہے گا فاصلہ قربت کے باوجود
ہم لوگ دوستی ہی نبھاتے رہے سدا
اُن کی طرف سے لاکھ عداوت کے باوجود
خودداریِ مزاج نے تالا لگا دیا
ہلتی نہیں زبان ضرورت کے باوجود
پھر اُس کے حال ہی پر اُسے چھوڑ دیجیے
آئے نہ راہ پر جو ہدایت کے باوجود
دل ہے کہ اعتبار ہی کرتا چلا گیا
اُن سے ہزاروں شکوے شکایت کے باوجود
میں بھی تری طرح ہی اسیرِ انا رہا
ملنے نہ جا سکا کبھی چاہت کے باوجود
سختی سے پیش آنا پڑے ہے کبھی کبھار
بچّوں سے اپنے لاکھ محبّت کے باوجود
کچھ سوچنے سمجھنے کی دعوت تو دے گیا
آیا نہ جو سمجھ میں وضاحت کے باوجود
جادو اثر نہیں تو ہے بے لطف شاعری
فکر و خیال میں بڑی ندرت کے باوجود
سب سے بڑا دلیر ہے راغبؔ وہ آدمی
غصّے کی آگ پی لے جو قدرت کے باوجود
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *