غزل کے جسم میں

غزل
غزل کے جسم میں آئیں جو آپ جاں بن کر
ہر ایک شعر چمک اُٹھّے کہکشاں بن کر
سلگ رہا ہے بدن آتشِ گرانی میں
نکل رہی ہے ہر اِک آرزو دھواں بن کر
ہمیشہ یوں ہی تِری مصلحت پرست نظر
جنوں کے پانو میں الجھے گی بیڑیاں بن کر
بہت گراں انھیں گزری وہ ایک بات مِری
کہی تھی میں نے جو اِک بار بے زباں بن کر
نہ جانے کیوں ترے آتے ہی دوڑ جاتی ہے
خوشی کی لہر رگِ جاں میں بجلیاں بن کر
نہ فرق پاؤ گے کچھ میری خاکساری میں
زمین بن کے ملو تم کہ آسماں بن کر
کھنکنا چاہے ہمیشہ ہمارا دل راغبؔ
کسی کے ہاتھوں کی خوش رنگ چوڑیاں بن کر
اکتوبر ۲۰۰۷ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *