اتنا افسردہ نہ اے

غزل
اتنا افسردہ نہ اے میرے دلِ ناشاد ہو
بھول جا باتیں پُرانی، شاد ہو، آباد ہو
کامیابی اور ناکامی کی باتیں بعد میں
پہلے تم کو عشق کا پہلا سبق تو یاد ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ شہپر ہی کو میرے دیکھ کر
پَر شکستہ ایک دن خود ہمّتِ صیّاد ہو
خود سے سننا چاہتا ہوں صرف میں ایسا ہی شعر
دل کہے سن کر جسے ’اچھّا ہے ، پھر ارشاد ہو‘
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا پھر بولنا
دل میں اتنا خوف کیوں ہے تم اگر آزاد ہو
کیوں تمھاری شوخیِ گفتار پر راغبؔ ہوا
افتخارِ کم سخن شاید تمھیں بھی یاد ہو
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *