وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا

وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا
ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا
مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے
بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا
چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں
کبھی ہوا کا ادھر سے گزر نہیں ہوتا
خود اپنے واسطے جینا بھی کوئی جینا ہے
سفرحیات کا کیوں مختصر نہیں ہوتا
خود اپنے دیس کی مٹی مرا تشخص ہے
دیارِ غیر کا گھر اپنا گھر نہیں ہوتا
حسن یہ عشق کی سوغات بھی عجب شے ہے
یہ وہ شجر ہے جس کا ثمر نہیں ہوتا
حسن رضوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *