اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں

اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں
ایک عمر تو گزر گئی کب تک وفا کریں
بزم خیال کھوئی گئی کوئے یار میں
تنہائی ذہن میں بھی اب چپ رہا کوئی
اے پر شکستگی ترا احسان اٹھائیے
پرواز کی سعی میں تماشہ بنا کریں
ایک بار مشتِ خاک سے فرصت نہیں ملی
کیسے اٹھائیں سر کو، کوئی بات کریں
ہے میکدہ یہیں کہیں راہِ حرم کے بیچ
چلتے میں ایک جام اگر پی لیا کریں
رضوی غریب شہر ہے ایسا، عجب نہیں
کوئے جنوں سے اس کے صحیفے ملا کریں
شاہد رضوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *