مرے خلاف ہوا ہے تو اس کا ڈر بھی نہیں

مرے خلاف ہوا ہے تو اس کا ڈر بھی نہیں
یہ جانتے ہیں کہ وہ اتنا معتبر بھی نہیں
تجھے بھی دیکھ لیا شامِ وعدئہ آخر
اب اعتبار ہمیں تیرے نام پر بھی نہیں
یہاں تو سانس بھی لینا محال لگتا ہے
ہم اس فصیل کے قیدی ہیں جس میں دَر بھی نہیں
بہت شدید ہے خواہش اڑان کی لیکن
قفس نصیب پرندوں کے بال و پر بھی نہیں
محبتوں میں وفا کی سزا تو ملنی تھی
دلِ تباہ ترے کام معتبر بھی نہیں
نوشی گیلانی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *