آنکھوں کے اُس پار – فوزیه رباب

آنکھوں کے اُس پار
بستی بستی پھرتے پھرتے ہو گیا روپ اروپ
تیری ایک نگہ ہی پریتم زخم کرے کافور
آس امید کے بندھن باندھ کے ہو گئی میںبے چین
ہو گیا تیری پیت میں ساجن سونا یہ گھر بار
پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اُس پار
سینے اندر درد سمندر سب لہریں بے چین
دو نیناں دو کملے نیناں روئیں ساری رین
پریتم کے بن کیسے گزرے لمبی جیون راہ
کس کاری پھر نین نشیلے کس کاری سنگھار
پریتم رستہ بھو ل گئے ہیں آنکھوں کے اُس پار
جب سے پی کو دیکھا میں نے چین کہیں نہ پاؤں
پی کی راہ میں اٹکے نیناں، واری واری جاؤں
ان کی ایک ادا پر اپنا کر دوں جیون دان
بِن پریتم کے سونا ہے جگ سونا ہے سنسار
پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اُس پار
ساون کی یہ بوندیں پیاسے تن من کو مہکائیں
کچی مٹّی جیسا دل ہے خوشبو کیوں نہ آئے
اک انجانی آس میں اپنا جیون بیتا جائے
اب کے برس یہ سوچ رہی ہوں کون اپنا غمخوار
پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اُس پار
منڈیری پر کاگا بولے چوری کُوٹ کھلاؤں
مجھ سے پریتم آن ملیں یا ان سے ملنے جاؤں
وہ بیری تو سب جگ بیری کیسے یہ سمجھاؤں
اُن بِن اجڑ اجڑا سونا سونا یہ گھر بار
پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اُس پار
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *