یوں دعوت‌ شباب نہ دو میں نشے میں ہوں

یوں دعوت‌ شباب نہ دو میں نشے میں ہوں
یہ دوسری شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

ایسا نہ ہو کہ نشے میں کٹ جائے زندگی
آنکھوں کو کوئی خواب نہ دو میں نشے میں ہوں

اتنا بہت ہے تم سے نگاہیں ملی رہیں
اب بس کرو شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

یارو دل و دماغ میں کافی ہے فاصلہ
الجھے ہوئے جواب نہ دو میں نشے میں ہوں

ایسا نہ ہو کہ راز تمہارا میں کھول دوں
دیکھو مجھے جواب نہ دو میں نشے میں ہوں

دامن کا ہوش ہے نہ گریباں کا ہوش ہے
کانٹوں بھرا گلاب نہ دو میں نشے میں ہوں

خود کو سنبھالنا یہاں مشکل ہے دوستو
چھلکی ہوئی شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

جو لمحے نور ہوش میں رہ کر گزر گئے
ان کا ابھی حساب نہ دو میں نشے میں ہوں

کرشن بہاری نور

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *