کرشن بہاری نور

کرشن بہاری نور
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

کرشن بہاری نور
آئنہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں مگر
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں

کرشن بہاری نور
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

کرشن بہاری نور
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے

کرشن بہاری نور
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

کرشن بہاری نور
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

کرشن بہاری نور
مٹے یہ شبہ تو اے دوست تجھ سے بات کریں
ہماری پہلی ملاقات آخری تو نہیں

کرشن بہاری نور
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

کرشن بہاری نور
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

کرشن بہاری نور
یہی ملنے کا سمے بھی ہے بچھڑنے کا بھی
مجھ کو لگتا ہے بہت اپنے سے ڈر شام کے بعد

کرشن بہاری نور
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے

کرشن بہاری نور
رات ہو دن ہو غفلت ہو کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت

تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

کرشن بہاری نور
اس تش نہ لب کی نیند نہ ٹوٹے دعا کرو​
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے​

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ روپ ہے​
وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے​

کرشن بہاری نور
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

زندگی اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

کیسے اوتار کیسے پیغمبر
ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نور سنسار سے گیا ہی نہیں

کرشن بہاری نور
آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں
اور پھر ماننا پڑتا ہے خدا ہے مجھ میں

اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کر کے چھپا ہے مجھ میں

جتنے موسم ہیں سبھی جیسے کہیں مل جائیں
ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں

آئنہ یہ تو بتاتا ہے میں کیا ہوں لیکن
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں

اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری اے نور
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں

کرشن بہاری نور
نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد

میں کیسے اور کس سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد

کٹی ہوئی تھیں طنابیں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد

گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد

کرشن بہاری نور
وہ لب کہ جیسے ساغر صہبا دکھائی دے
جنبش جو ہو تو جام چھلکتا دکھائی دے

دریا میں یوں تو ہوتے ہیں قطرے ہی قطرے سب
قطرہ وہی ہے جس میں کہ دریا دکھائی دے

کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے

اس تشنہ لب کے نیند نہ ٹوٹے دعا کرو
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے

کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ روپ ہے
وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے

کرشن بہاری نور
اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
ان دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت

رات ہو دن ہو کہ غفلت ہو کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت

تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

مرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت

کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نور اجالا ہے بہت

کرشن بہاری نور
تیز ہو جاتا ہے خوشبو کا سفر شام کے بعد
پھول شہروں میں بھی کھلتے ہیں مگر شام کے بعد

اس سے دریافت نہ کرنا کبھی دن کے حالات
صبح کا بھولا جو لوٹ آیا ہو گھر شام کے بعد

دن ترے ہجر میں کٹ جاتا ہے جیسے تیسے
مجھ سے رہتی ہے خفا میری نظر شام کے بعد

قد سے بڑھ جائے جو سایہ تو برا لگتا ہے
اپنا سورج وہ اٹھا لیتا ہے ہر شام کے بعد

تم نہ کر پاؤگے اندازہ تباہی کا مری
تم نے دیکھا ہی نہیں کوئی شجر شام کے بعد

میرے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے سب منظور
مجھ کو رہتی ہی نہیں اپنی خبر شام کے بعد

یہی ملنے کا سمے بھی ہے بچھڑنے کا بھی
مجھ کو لگتا ہے بہت اپنے سے ڈر شام کے بعد

تیرگی ہو تو وجود اس کا چمکتا ہے بہت
ڈھونڈ تو لوں گا اسے نور مگر شام کے بعد

کرشن بہاری نور
اپنا پتہ نہ اپنی خبر چھوڑ جاؤں گا
بے سمتیوں کی گرد سفر چھوڑ جاؤں گا

تجھ سے اگر بچھڑ بھی گیا میں تو یاد رکھ
چہرے پہ تیرے اپنی نظر چھوڑ جاؤں گا

غم دوریوں کا دور نہ ہو پائے گا کبھی
وہ اپنی قربتوں کا اثر چھوڑ جاؤں گا

گزرے گی رات رات مرے ہی خیال میں
تیرے لیے میں صرف سحر چھوڑ جاؤں گا

جیسے کہ شمع دان میں بجھ جائے کوئی شمع
بس یوں ہی اپنے جسم کا گھر چھوڑ جاؤں گا

میں تجھ کو جیت کر بھی کہاں جیت پاؤں گا
لیکن محبتوں کا ہنر چھوڑ جاؤں گا

آنسو ملیں گے میرے نہ پھر تیرے قہقہے
سونی ہر ایک راہ گزر چھوڑ جاؤں گا

سنسار میں اکیلا تجھے اگلے جنم تک
ہے چھوڑنا محال مگر چھوڑ جاؤں گا

اس پار جا سکیں گی تو یادیں ہی جائیں گی
جو کچھ ادھر ملا ہے ادھر چھوڑ جاؤں گا

غم ہوگا سب کو اور جدا ہوگا سب کا غم
کیا جانے کتنے دیدۂ تر چھوڑ جاؤں گا

بس تم ہی پا سکو گے کریدو گے تم اگر
میں اپنی راکھ میں بھی شرر چھوڑ جاؤں گا

کچھ دیر کو نگاہ ٹھہر جائے گی ضرور
افسانے میں اک ایسا کھنڈر چھوڑ جاؤں گا

کوئی خیال تک بھی نہ چھو پائے گا مجھے
یہ چاروں سمت آٹھوں پہر چھوڑ جاؤں گا

کرشن بہاری نور
رک گیا آنکھ سے بہتا ہوا دریا کیسے
غم کا طوفاں تو بہت تیز تھا ٹھہرا کیسے

ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھرا رہتا ہوں
ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہا کیسے

مجھ سے جب ترک تعلق کا کیا عہد تو پھر
مڑ کے میری ہی طرف آپ نے دیکھا کیسے

مجھ کو خود پر بھی بھروسا نہیں ہونے پاتا
لوگ کر لیتے ہیں غیروں پہ بھروسا کیسے

دوستوں شکر کرو مجھ سے ملاقات ہوئی
یہ نہ پوچھو کہ لٹی ہے مری دنیا کیسے

دیکھی ہونٹوں کی ہنسی زخم نہ دیکھے دل کے
آپ دنیا کی طرف کھا گئے دھوکا کیسے

آپ بھی اہل خرد اہل جنوں تھے موجود
لٹ گئے ہم بھی تری بزم میں تنہا کیسے

اس جنم میں تو کبھی میں نہ ادھر سے گزرا
تیری راہوں میں مرے نقش کف پا کیسے

آنکھ جس جا پہ بھی پڑتی ہے ٹھہر جاتی ہے
لکھنا چاہوں تو لکھوں تیرا سراپا کیسے

زلفیں چہرے سے ہٹا لو کہ ہٹا دوں میں خود
نور کے ہوتے ہوئے اتنا اندھیرا کیسے

کرشن بہاری نور
دینا ہے تو نگاہ کو ایسی رسائی دے
میں دیکھتا ہوں آئنہ تو مجھے تو دکھائی دے

کاش ایسا تال میل سکوت و صدا میں ہو
اس کو پکاروں میں تو اسی کو سنائی دے

اے کاش اس مقام پہ پہنچا دے اس کا پیار
وہ کامیاب ہونے پہ مجھ کو بدھائی دے

مجرم ہے سوچ سوچ گنہ گار سانس سانس
کوئی صفائی دے تو کہاں تک صفائی دے

ہر آنے جانے والے سے باتیں تری سنوں
یہ بھیک ہے بہت مجھے در کی گدائی دے

یا یہ بتا کہ کیا ہے مرا مقصد حیات
یا زندگی کی قید سے مجھ کو رہائی دے

کچھ احترام اپنی انا کا بھی نور کر
یوں بات بات پر نہ کسی کی دہائی دے

کرشن بہاری نور
جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہے یارو
میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے یارو

مڑ کے دیکھوں تو کدھر اور صدا دوں تو کسے
میرے ماضی نے مجھے چھوڑ دیا ہے یارو

اس سزا سے تو مرا جی ہی نہیں بھرتا ہے
زندگی کیسے گناہوں کی سزا ہے یارو

شب ہے اس وقت کوئی گھر نہ کھلا پاؤ گے
آؤ مے خانہ کا دروازہ کھلا ہے یارو

کوئی کرتا ہے دعائیں تو یہ جل جاتا ہے
میرا جیون کسی مندر کا دیا ہے یارو

میں اندھیرے میں رہوں یا میں اجالے میں رہوں
ایسا لگتا ہے کوئی دیکھ رہا ہے یارو

حال کا زخم تو ماضی سے بہت گہرا ہے
آج زخمی مرا سایہ بھی ہوا ہے یارو

انتظار آج کے دن کا تھا بڑی مدت سے
آج اس نے مجھے دیوانہ کہا ہے یارو

کرشن بہاری نور
یوں دعوت‌ شباب نہ دو میں نشے میں ہوں
یہ دوسری شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

ایسا نہ ہو کہ نشے میں کٹ جائے زندگی
آنکھوں کو کوئی خواب نہ دو میں نشے میں ہوں

اتنا بہت ہے تم سے نگاہیں ملی رہیں
اب بس کرو شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

یارو دل و دماغ میں کافی ہے فاصلہ
الجھے ہوئے جواب نہ دو میں نشے میں ہوں

ایسا نہ ہو کہ راز تمہارا میں کھول دوں
دیکھو مجھے جواب نہ دو میں نشے میں ہوں

دامن کا ہوش ہے نہ گریباں کا ہوش ہے
کانٹوں بھرا گلاب نہ دو میں نشے میں ہوں

خود کو سنبھالنا یہاں مشکل ہے دوستو
چھلکی ہوئی شراب نہ دو میں نشے میں ہوں

جو لمحے نور ہوش میں رہ کر گزر گئے
ان کا ابھی حساب نہ دو میں نشے میں ہوں

کرشن بہاری نور
یارو گھر آئی شام چلو میکدے چلیں
یاد آ رہے ہیں جام چلو میکدے چلیں

دیر و حرم پہ کھل کے جہاں بات ہو سکے
ہے ایک ہی مکان چلو میکدے چلیں

اچھا نہیں پئیں گے جو پینا حرام ہے
جینا نہ ہو حرام چلو میکدے چلیں

یارو جو ہوگا دیکھیں گے غم سے تو ہو نجات
لے کر خدا کا نام چلو میکدے چلیں

ساقی بھی ہے شراب بھی آزادیاں بھی ہیں
سب کچھ ہے انتظام چلو میکدے چلیں

ایسی فضا میں لطف عبادت نہ آئے گا
لینا ہے اس کا نام چلو میکدے چلیں

فرصت غموں سے پانا اگر ہے تو آؤ نور
سب کو کریں سلام چلو میکدے چلیں

کرشن بہاری نور
لاکھ غم سینے سے لپٹے رہے ناگن کی طرح
پیار سچا تھا مہکتا رہا چندن کی طرح

تجھ کو پہچان لیا ہے تجھے پا بھی لوں گا
اک جنم اور ملے گر اسی جیون کی طرح

اب کوئی کیسے پہنچ پائے گا تیرے غم تک
مسکراہٹ کی ردا ڈال دی چلمن کی طرح

کوئی تحریر نہیں ہے جسے پڑھ لے کوئی
زندگی ہو گئی بے نام سی الجھن کی طرح

جیسے دھرتی کی کسی شے سے تعلق ہی نہیں
ہو گیا پیار ترا بھی ترے دامن کی طرح

شام جب رات کی محفل میں قدم رکھتی ہے
بھرتی ہے مانگ میں سندور سہاگن کی طرح

مسکراتے ہو مگر سوچ لو اتنا اے نور
سود لیتی مسرت بھی مہاجن کی طرح

کرشن بہاری نور
تمام جسم ہی گھائل تھا گھاؤ ایسا تھا
کوئی نہ جان سکا رکھ رکھاؤ کیسا تھا

بس اک کہانی ہوئی یہ پڑاؤ ایسا تھا
مری چتا کا بھی منظر الاؤ ایسا تھا

وہ ہم کو دیکھتا رہتا تھا ہم ترستے تھے
ہماری چھت سے وہاں تک دکھاؤ ایسا تھا

کچھ ایسی سانسیں بھی لینا پڑیں جو بوجھل تھیں
ہوا کا چاروں طرف سے دباؤ ایسا تھا

خریدتے تو خریدار خود بھی بک جاتے
تپے ہوئے کھرے سونے کا بھاؤ ایسا تھا

ہیں دائرے میں قدم یہ نہ ہو سکا محسوس
رہ حیات میں یارو گھماؤ ایسا تھا

کوئی ٹھہر نہ سکا موت کے سمندر تک
حیات ایسی ندی تھی بہاؤ ایسا تھا

بس اس کی مانگ میں سندور بھر کے لوٹ آئے
ہمارے اگلے جنم کا چناؤ ایسا تھا

پھر اس کے بعد جھکے تو جھکے خدا کی طرف
تمہاری سمت ہمارا جھکاؤ ایسا تھا

وہ جس کا خون تھا وہ بھی شناخت کر نہ سکا
ہتھیلیوں پہ لہو کا رچاؤ ایسا تھا

زباں سے کچھ نہ کہوں گا غزل یہ حاضر ہے
دماغ میں کئی دن سے تناؤ ایسا تھا

فریب دے ہی گیا نور اس نظر کا خلوص
فریب کھا ہی گیا میں سبھاؤ ایسا تھا

کرشن بہاری نور
پلکوں کی اوٹ میں وہ چھپا لے گیا مجھے
یعنی نظر نظر سے بچا لے گیا مجھے

اب اس کو اپنی ہار کہوں یا کہوں میں جیت
روٹھا ہوا تھا میں وہ منا لے گیا مجھے

مدت سے ایک رات بھی اپنی نہیں ہوئی
ہر شام کوئی آیا اٹھا لے گیا مجھے

ہو واپسی اگر تو انہیں راستوں سے ہو
جن راستوں سے پیار ترا لے گیا مجھے

اک جان دار لاش سمجھئے مرا وجود
اب کیا دھرا ہے کوئی چرا لے گیا مجھے

آواگمن کی قید سے کیا چھوٹتا کبھی
بس تیرا پیار تھا جو چھڑا لے گیا مجھے

دھرتی کا یہ سفر مرا جس دن ہوا تمام
جھونکا ہوا کا آیا اڑا لے گیا مجھے

طوفاں کے بعد میں بھی بہت ٹوٹ سا گیا
دریا پھر اپنے رخ پہ بہا لے گیا مجھے

مدت کے بعد نور ہنسی لب پہ آئی ہے
وہ اپنا ہم خیال بنا لے گیا مجھے

کرشن بہاری نور
بس ایک وقت کا خنجر مری تلاش میں ہے
جو روز بھیس بدل کر مری تلاش میں ہے

ادھورے خوابوں سے اکتا کے جس کو چھوڑ دیا
شکن نصیب وہ بستر مری تلاش میں ہے

عزیز ہوں میں تجھے کس قدر کہ ہر اک غم
تری نگاہ بچا کر مری تلاش میں ہے

میں ایک قطرہ ہوں میرا الگ وجود تو ہے
ہوا کرے جو سمندر مری تلاش میں ہے

وہ ایک سایہ ہے اپنا ہو یا پرایا ہو
جنم جنم سے برابر مری تلاش میں ہے

میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

وہ جس خلوص کی شدت نے مار ڈالا نور
وہی خلوص مکرر مری تلاش میں ہے

کرشن بہاری نور
بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
عجیب طرح کے بس حادثے گزرتے ہیں

زمین چھوڑ نہ پاؤں گا انتظار یہ ہے
وہ آسمان سے دھرتی پہ کب اترتے ہیں

یہ کس نے کھینچ دی سانسوں کی لکشمن ریکھا
کہ جسم جلتا ہے باہر جو پاؤں دھرتے ہیں

یہ چاند تارے زمیں اور آفتاب تمام
طواف کرتے ہیں کس کا طواف کرتے ہیں

حیات دیتی ہیں سانسیں بس اک مقام تلک
پھر اس کے بعد تو بس سانس سانس مرتے ہیں

کرشن بہاری نور
یہ لمحہ زیست کا ہے بس آخری ہے اور میں ہوں
ہر ایک سمت سے اب واپسی ہے اور میں ہوں

حیات جیسے ٹھہر سی گئی ہو یہ ہی نہیں
تمام بیتی ہوئی زندگی ہے اور میں ہوں

میں اپنے جسم سے باہر ہوں اور ہوش بھی ہے
زمیں پہ سامنے اک اجنبی ہے اور میں ہوں

وہ کوئی خواب ہو چاہے خیال یا سچ ہو
فضا میں اڑتی ہوئی چاندنی ہے اور میں ہوں

کسی مقام پہ رکنے کو جی نہیں کرتا
عجیب پیاس عجب تشنگی ہے اور میں ہوں

اکیلا عشق ہے ہجر و وصال کچھ بھی نہیں
بس ایک عالم دیوانگی ہے اور میں ہوں

نہ لفظ ہے نہ صدا پھر بھی کیا نہیں واضح
کلام کرتی ہوئی خامشی ہے اور میں ہوں

سرور و کیف کا عالم حدوں کو چھوتا ہوا
خودی کا نشہ ہے کچھ آگہی ہے اور میں ہوں

مقابل اپنے کوئی ہے ضرور کون ہے وہ
بساط دہر ہے بازی بچھی ہے اور میں ہوں

جہاں نہ سکھ کا ہے احساس اور نہ دکھ کی کسک
اسی مقام پہ اب شاعری ہے اور میں ہوں

مرے وجود کو اپنے میں جذب کرتی ہوئی
نئی نئی سی کوئی روشنی ہے اور میں ہوں

جو چند لمحوں میں گزرا بتا دیا سب کچھ
پھر اس کے بعد وہی زندگی ہے اور میں ہوں

کرشن بہاری نور
جبیں کو در پہ جھکانا ہی بندگی تو نہیں
یہ دیکھ میری محبت میں کچھ کمی تو نہیں

ہزار غم سہی دل میں مگر خوشی یہ ہے
ہمارے ہونٹوں پہ مانگی ہوئی ہنسی تو نہیں

مٹے یہ شبہ تو اے دوست تجھ سے بات کریں
ہماری پہلی ملاقات آخری تو نہیں

ہوئی جو جشن بہاراں کے نام سے منسوب
یہ آشیانوں کے جلنے کی روشنی تو نہیں

حیات ہی کے لئے بیقرار ہے دنیا
ترے فراق کا مقصد حیات ہی تو نہیں

غم حبیب کہاں اور کہاں غم جاناں
مصاحبت ہے یقیناً برابری تو نہیں

یہ ہجر یار یہ پابندیاں عبادت کی
کسی خطا کی سزا ہے یہ زندگی تو نہیں

تمہاری بزم میں افسانہ کہتے ڈرتا ہوں
یہ سوچتا ہوں یہاں کوئی اجنبی تو نہیں

کرشن بہاری نور
کسی سے راز محبت نہ آشکار کیا
تری نظر کے بدلنے تک انتظار کیا

نہ کوئی وعدہ تھا ان سے نہ کوئی پابندی
تمام عمر مگر ان کا انتظار کیا

ٹھہر کے مجھ پہ ہی اہل چمن کی نظروں نے
مرے جنون سے انداز بہار کیا

سحر کے ڈوبتے تارو گواہ رہنا تم
کہ میں نے آخری سانسوں تک انتظار کیا

جہاں سے تیری توجہ ہوئی فسانے پر
وہیں سے ڈوبتی نبضوں نے اختصار کیا

یہی نہیں کہ ہمیں انتظار کرتے رہے
کبھی کبھی تو انہوں نے بھی انتظار کیا

کرشن بہاری نور
اس کی دھن میں ہر طرف بھاگا کیا دوڑا کیا
ایک بوند امرت کی خاطر میں سمندر پی گیا

اک طرف قانون ہے اور اک طرف انسان ہے
ختم ہوتا ہی نہیں جرم و سزا کا سلسلہ

اول و آخر کے کچھ اوراق ملتے ہی نہیں
ہے کتاب زندگی بے ابتدا بے انتہا

پھول میں رنگت بھی تھی خوشبو بھی تھی اور حسن بھی
اس نے آوازیں تو دیں لیکن کہاں میں سن سکا

میں تو چھوٹا ہوں جھکا دوں گا کبھی بھی اپنا سر
سب بڑے یہ طے تو کر لیں کون ہے سب سے بڑا

جیسے ان دیکھے اجالے کی کوئی دیوار ہو
بند ہو جاتا ہے کچھ دوری پہ ہر اک راستا

حسن و الفت دونوں ہیں اب ایک سطح پر مگر
آئنہ در آئینہ بس آئنہ در آئینہ

جب نہ مجھ سے بن سکی اس تک رسائی کی سبیل
ایک دن میں خود ہی اپنے راستے سے ہٹ گیا

زندہ باد اے دل مرے میں بھی ہوں تجھ سے متفق
پیار سچا ہے تو پھر کیسی وفا کیسی جفا

ہاں مگر تصدیق میں عمریں گزر جاتی ہیں نور
کچھ نہ کچھ رہتا ہے سب کو اپنی منزل کا پتا

کرشن بہاری نور
جاگتی حقیقت تک راستہ ہے خوابوں کا
درمیاں مرے ان کے فاصلہ ہے خوابوں کا

ایک شب کے ٹکڑوں کے نام مختلف رکھے
جسم و روح کا بندھن سلسلہ ہے خوابوں کا

دیکھیں اس کشاکش کا اختتام ہو کب تک
جاگنے کی خواہش ہے حوصلہ ہے خوابوں کا

اپنی اپنی تعبیریں ڈھونڈھتا ہے ہر چہرہ
چہرہ چہرہ پڑھ لیجے تذکرہ ہے خوابوں کا

نشے کا یہ عالم ہے سچ ہی سچ لگے سب کچھ
زندگی کی صہبا ہے مے کدہ ہے خوابوں کا

گرد راہ کی صورت سانس سانس ہے اے نور
میر کارواں میں ہوں قافلہ ہے خوابوں کا

کرشن بہاری نور
خموشیوں میں سدا سے لکھا ہوا اک نام
سنو ہے دست دعا سے لکھا ہوا اک نام

ہر اک کی اپنی زباں ہے نہ پڑھ سکے گا بشر
زمیں پہ آب و ہوا سے لکھا ہوا اک نام

جو سن سکو تو سنو خوشبوؤں کے لب پر ہے
گلوں پہ باد صبا سے لکھا ہوا اک نام

چمکتا رہتا ہے جب تک کریدی جائے نہ راکھ
چتا پہ دست فنا سے لکھا ہوا اک نام

عجیب بات ہے پڑھیے تو حرف اڑنے لگیں
بدن بدن پہ قبا سے لکھا ہوا اک نام

کبھی کبھی تو برستے ہوئے بھی دیکھا ہے
فلک پہ کالی گھٹا سے لکھا ہوا اک نام

مگر یہ قوت بینائی کس طرح آئی
ہوا میں دیکھا ہوا سے لکھا ہوا اک نام

کبھی کھلیں گی اگر مٹھیاں تو دیکھیں گے
ہتھیلیوں پہ حنا سے لکھا ہوا اک نام

یہ کائنات تو لگتا ہے نور جیسے ہو
کسی کی خاص ادا سے لکھا ہوا اک نام

کرشن بہاری نور
ہو کے بے چین میں بھاگا کیا آہو کی طرح
بس گیا تھا مرے اندر کوئی خوشبو کی طرح

کوئی سایہ نہ ملا سایۂ گیسو کی طرح
سارے جیون کی تھکن اتری ہے جادو کی طرح

میری آواز تجھے چھو لے بس اتنی مہلت
تیرے کوچے سے گزر جاؤں گا سادھو کی طرح

وہ جو آ جائے تو کیا ہوش کا عالم ہوگا
جس کے آنے کی خبر پھیلی ہے خوشبو کی طرح

زندگی پیار وفا سب کا مقدر یکساں
مسکراہٹ کی طرح ہے کبھی آنسو کی طرح

ہر طرف آگ لگا آئے ہو پھر پوچھتے ہو
کیوں چلی باد صبا اب کے برس لو کی طرح

شاعری تیری عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
کر رہا ہوں میں تپسیا کسی سادھو کی طرح

ہر الم ساتھ رہا گرد سفر کی مانند
ہر خوشی راہ میں مجھ کو ملی جگنو کی طرح

زندگی ٹھوکریں کھاتی ہے بچھڑ کر تجھ سے
تیری پازیب کے ٹوٹے ہوئے گھنگھرو کی طرح

کوئی اشور کہے اس کو کہ خدا کوئی کہے
وہ مسلماں کی طرح ہے نہ وہ ہندو کی طرح

اپنی ہر سانس پہ احساں لئے ہمدردوں کا
زندگی جیتا ہوں اس عہد میں اردو کی طرح

اب یہ احساس کی خوبی ہو کہ خامی ہو نور
اس کی نفرت کا دھواں بھی لگا خوشبو کی طرح

کرشن بہاری نور
کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں
میں اپنے ذہن کی آوارگی کی قید میں ہوں

شراب میرے لبوں کو ترس رہی ہوگی
میں رند تو ہوں مگر تشنگی کی قید میں ہوں

نہ کوئی سمت نہ جادہ نہ منزل مقصود
یگوں یگوں سے یوں ہی بے رخی کی قید میں ہوں

کسی کے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا میں نے
سزا یہ پائی کی دیوانگی کی قید میں ہوں

یہ کس خطا کی سزا میں ہیں دوہری زنجیریں
گرفت موت کی ہے زندگی کی قید میں ہوں

نہ جانے کتنی نقابیں الٹتا جاتا ہوں
جنم جنم سے میں بے چارگی کی قید میں ہوں

یہاں تو پردۂ سیمیں پہ چل رہی ہے فلم
میں جس جگہ ہوں وہاں روشنی کی قید میں ہوں

جہاں میں قید سے چھوٹوں وہیں پہ مل جانا
ابھی نہ ملنا ابھی زندگی کی قید میں ہوں

غرض نصیب میں لکھی رہی اسیری ہی
کسی کی قید سے چھوٹا کسی کی قید میں ہوں

گناہ یہ ہے کہ کیوں اپنا نام رکھا نور
وہ دن اور آج کا دن تیرگی کی قید میں ہوں

کرشن بہاری نور
دکھائی دے نہ کبھی یہ تو ممکنات میں ہے
وہ سب وجود میں ہے جو تصورات میں ہے

میں جس ہنر سے ہوں پوشیدہ اپنی غزلوں میں
اسی طرح وہ چھپا ساری کائنات میں ہے

کہ جیسے جسم کی رگ رگ میں دوڑتا ہے لہو
اسی طرح وہ رواں عرصۂ حیات میں ہے

کہ جیسے سنگ کے سینے میں کوئی بت ہے نہاں
اسی طرح کوئی صورت تخیلات میں ہے

کہ جیسے وقت گزرنے کا کچھ نہ ہو احساس
اسی طرح وہ شریک سفر حیات میں ہے

کہ جیسے بوئے وفا خود سپردگی میں ملے
اسی طرح کی مہک اس کی التفات میں ہے

کہ جیسے جھوٹ کئی جھوٹ کے سہارے لے
اسی طرح وہ پریشاں تکلفات میں ہے

گناہ بھی کوئی جیسے کرے ڈرے بھی بہت
اسی طرح کی جھجھک اس کی بات بات میں ہے

بس اب تو عشق ہے ہجر و وصال کچھ بھی نہیں
یہ ٹکڑا زیست کا دن میں ہے اور نہ رات میں ہے

نظر کے زاویہ بدلے ہے اور کچھ بھی نہیں
وہی ہے کعبے میں جو نور سومناتھ میں ہے

کرشن بہاری نور

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *