صدیوں کی شب غم کو سحر ہم نے بنایا

صدیوں کی شب غم کو سحر ہم نے بنایا
ذرات کو خورشید و قمر ہم نے بنایا

تخلیق اندھیروں سے کیے ہم نے اجالے
ہر شب کو اک ایوان سحر ہم نے بنایا

برفاب کے سینے میں کیا ہم نے چراغاں
ہر موجۂ دریا کو شرر ہم نے بنایا

شبنم سے نہیں رنگ دیا دل کے لہو سے
ہر خار کو برگ گل تر ہم نے بنایا

ہر خار کے سینے میں چمن ہم نے کھلائے
ہر پھول کو فردوس نظر ہم نے بنایا

رفتار کو کھلتے ہوئے غنچوں کی صدا دی
ہر گام کو اک خلد نظر ہم نے بنایا

ہر رخ سے ترے حسن کی ضو پھوٹ رہی ہے
کیا زاویۂ فکر و نظر ہم نے بنایا

اشکوں کو شفق رنگ کیا خون جگر سے
کیا غازۂ رخسار سحر ہم نے بنایا

ڈھلتے ہیں جہاں بادۂ تجدید کے ساغر
وہ مے کدۂ فکر و نظر ہم نے بنایا

ساغر نظامی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *