توجہ تیری اے حیرت مری آنکھوں پہ کیا کم ہے

توجہ تیری اے حیرت مری آنکھوں پہ کیا کم ہے
جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے
کرے ہے مو پریشاں غم وفا تو تعزیہ تو لے
حیا کر حق صحبت کی کہ اس بیکس کا ماتم ہے
دورنگی دہر کی پیدا ہے یاں سے دل اٹھا اپنا
کسو کے گھر میں شادی ہے کہیں ہنگامۂ غم ہے
کہیں آشفتگاں سے میرؔ مقصد ہووے ہے حاصل
جو زلفیں اس کی درہم ہیں مرا بھی کام برہم ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *