جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے

جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
ان ہی دیدۂ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
سر جانے کی اور اپنے زنہار نگاہ نہ کی ہم نے
اٹھ کے اندھا دھند آئے چلے ہی اس ظالم کے قدم دیکھے
عالم ہیئت مجموعی سے ایک عجیب مرقع ہے
ہر صفحے میں ورق میں اس کے دیکھے تو عالم دیکھے
زخم نہ ہوویں کیونکر غائر چھاتی میں دل خستوں کی
تیرنگاہ یار جگر پر لگتے ہوئے پیہم دیکھے
یار کے در پر ذکر ہے کیا ہنگامۂ روز محشر کا
اس کوچے میں قیامت سے تو میرؔ بہت اودھم دیکھے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *