دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی

دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اس رشک مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی
کاش اے جان المناک نکل جاوے تو
اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی
آخرکار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینہ چاک و دل پژمردہ مژہ نم سے بھی
آہ ہر غیر سے تا چند کہوں جی کی بات
عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی
دوری کوچہ میں اے غیرت فردوس تری
کام گذرا ہے مرا گریۂ آدم سے بھی
ہمت اپنی ہی تھی یہ میرؔ کہ جوں مرغ خیال
اک پر افشانی میں گذرے سرعالم سے بھی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *