دل ہے میری بغل میں صد پارہ

دل ہے میری بغل میں صد پارہ
اور ہر پارہ اس کا آوارہ
عرق شرم رو سے دلبر کے
رفتہ ثابت گذشتہ سیارہ
خواری عشق اپنی عزت ہے
کی ہے ہموار ہم نے ہموارہ
کام اس سے پکڑ کمر نہ لیا
ہیچ کارہ بھی ہے یہ ناکارہ
ٹوٹتیں پھوٹتیں نہ کاش آنکھیں
کرتے ان رخنوں ہی سے نظارہ
گو مسیحا مزاج آوے طبیب
عشق میں مرگ بن نہیں چارہ
کیا بنے اس سے میرؔ میں مسکین
وہ جفا پیشہ و ستم کارہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *