شور میرے جنوں کا جس جا ہے

شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
دل میں پھرتے ہیں خال و خط و زلف
مجھ کو یک سر ہزار سودا ہے
شور بازار میں ہے یوسفؑ کا
وہ بھی آ نکلے تو تماشا ہے
برچھیوں میں کہیں نہ بٹ جاوے
دل صفوف مژہ میں تنہا ہے
نظر آئے تھے وے حنائی پا
آج تک فتنہ ایک برپا ہے
دل کھنچے جاتے ہیں اسی کی اور
سارے عالم کی وہ تمنا ہے
برسوں رکھا ہے دیدۂ تر پر
پاٹ دامن کا اپنے دریا ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی دامن وسیع صحرا ہے
دلکشی اس کے قد کی سی معلوم
سرو بھی اک جوان رعنا ہے
دست و پا گم کیے ہیں تو نے میرؔ
پیری بے طاقتی سے پیدا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *