کیا گئی جان و دل سے تاب شتاب

کیا گئی جان و دل سے تاب شتاب
آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب
ہلیں وے پلکیں اور کیے رخنے
حال دل ہو گیا خراب شتاب
یوں صبا بھی سبک نہیں جاتی
جوں گیا موسم شباب شتاب
پیر ہو کر ہوا ہوں یوں غافل
جیسے لڑکوں کو آوے خواب شتاب
مرتے ہیں ہو جواب نامہ وہی
آوے خط کا اگر جواب شتاب
مہربانی تو دیر میں ہے کبھو
ہے دل آزاری و عتاب شتاب
یاں قدم چاہیے رکھیں گن کر
میرؔ لے ہے کوئی حساب شتاب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *