کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی

کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی
کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی
روئے گل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز
رخنۂ دیوار ہے یا دیدۂ نظارگی
اشک خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں
محتسب رکھتا ہے مجھ پر تہمت مے خوارگی
مت فریب سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میرؔ
ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیارگی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *