ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر

ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکر صبح کر گریے کو ورد شام کر
مست جنوں رہ روز و شب شہرہ ہو شہر و دشت میں
مجلس میں اپنی نقل خوش زنجیر کا بادام کر
جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگذر بے ننگ ہو کر نام کر
مر رہ کہیں بھی میرؔ جا سرگشتہ پھرنا تا کجا
ظالم کسو کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *