زمانہ

زمانہ
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل ، قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مےء شبانہ
مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
ہدف سے بیگانہ تیرا اس کا ، نظر نہیں جس کی عارفانہ
شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے ، یہ جوئے خوں ہے!
طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اس کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
جہان نو ہو رہا ہے پیدا ، وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *