میں گریے سے نم دریغ رکھوں
وہ غیرتِ شوق ہے کہ میں تو
آذر سے صنم دریغ رکھوں
مت پوچھ مری یگانہ رِندی
میں جام سے جَم دریغ رکھوں
ہوں دشت میں اُنس کے فروکش
آہو سے میں رَم دریغ رکھوں
ہے حرصِ زیانِ روشنائی
کاغذ سے قلم دریغ رکھوں
میں رشک زدہ خود اپنے لب سے
اُس لب کی قسم دریغ رکھوں
اک ایسا سفر ہے مجھ کو درپیش
جس سے میں قدم دریغ رکھوں
ہوں جس رہِ خم بہ خم کا رَہرَو
میں اس سے ہی خم دریغ رکھوں
جس شخص کا ہے بہا مری جان
میں اس سے دِرم دریغ رکھوں
جون ایلیا