کتنے سوال اُٹھتے رہتے تھے، ان کے جوابوں کے تھے ہم

کتنے سوال اُٹھتے رہتے تھے، ان کے جوابوں کے تھے ہم
کس کا دل، کیسی دل داری، اپنے حسابوں کے تھے ہم
تھا وہ گماں کی روشنیوں میں روشنیوں کا ایک گماں
خواب کی اک رُوداد تھی ساری، خواب تھے خوابوں کے تھے ہم
جانے کون زمانے تھے وہ جن میں تھی دل کی گذران
لکھتے ہیں یوں اپنے کتبے جیسے کتابوں کے تھے ہم
ہے یہ بادِ زرد کے چلنے سے کچھ پہلے کا مذکور
تھے اپنے رُخسار گلابی، اپنے گلابوں کے تھے ہم
تھی اک بے بنیاد تمنا، اک بربادی بے شکوا
جب تک تھے ہم بس یوں سمجھو، سخت عذابوں کے تھے ہم
اک دوپہر کا قصہ ہے جب شہر وہ ہم نے چھوڑا تھا
اس کے بعد کچھ ایسی بیتی، شام شرابوں کے تھے ہم
کاش کوئی رُوداد ہماری آن کے سن جائے ہم سے
رنگ میں اس کے تیر رہے تھے اور سرابوں کے تھے ہم
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *