لَوحِ ضرب

لَوحِ ضرب
اور میں اپنے چھے (6) میں نگاہوں کی روزی کماتے ہوۓ تھک گیا
اور میں حرف تھا، حرف، قامت پہنتے ہی،چھونے کی،چکھنے کی اور
دیکھنے اور سننے کی اور سونگھنے کی وباؤں میں ریشوں تلک چھک گیا
میرے چھے (6) میں سے جو بھی چھٹا تھا وہ پانچوں کے پانچوں کا انکار تھا
اور ان میں سے جو بھی تھا وہ اپنی باری میں بس اپنا اقرار تھا
میں تو بس ایک گنتی کی تکرار تھا
ایک گنتی کی تکرار ہے، جس میں ہونے کا ہر گوشوارہ قلم بند ہے
اور نہ ہونے کا ہر گوشوارہ تو دہ چند ہے
میری دائیں طرف ایک پھیلاؤ ہے،میری بائیں طرف ایک پھیلاؤ ہے
ایک پھیلاؤ پیچھے ہے، اک سامنے
ایک پھیلاؤ اوپر سے اوپر تلک، ایک پھیلاؤ نیچے کے پھیلاؤ تک
مجھ کو لکھا گیا ایک پھیلاؤ میں
اور پھر میرے ورقوں کا شیرازہ باندھا گیا ایک اندھیاؤ میں
اور میں اپنے لمحوں کے اندھیاؤ میں، اپنے بکھراؤ میں
اپنے ہی “میں” پہ اپنے ہی پتھراؤ میں ریز ہا ریز ہوں
تُو جو “میں”ہے، سو تُو کون ہے؟
تُو جو “تُو” ہے، سو میں کون ہوں؟
کون ہے جس کا ‘”میں” دھول ہے؟ کون ہے جس کا ‘ “تُو” دھند ہے؟
دھول اور دھند اور دہر کا سارا آہنگ اس پل کہیں ہے
تُو اُس ایک مِردنگ میں ہے
جو میری ہتھیلی کے شفاف چُھونے میں پھیلا ہوا ہے
مری میز میں ہے
ہاں وہ چوکور شفاف کے ریز ہا ریز میں ہے، جو مجھ سے بھی بڑھ کر
اکیلا ہے اور جس کی ویران بے مژہ آنکھوں کا سب سے انیلا، سجیلا
کوئی خواب ہے تو وہ میں ہوں
تو وہ میں ہوں جو اپنی ہی اک میز کا خواب ہے؟
میز جو اپنے سینے پہ شیشہ سجائے شعاعوں کو پرچا رہی ہے
تو اک خواب ہوں میں اور اس ڈوبتے دن کی اِس میز کا
اور اِس پر جو رکھی ہوئی ہیں
اُن آنکھوں کا اک خواب ہوں میں
ایک اور چار، پانچوں کا اک خواب ہوں میں
خواب اپنی آنکھوں کی روزی کماتے ہوئے تھک گئے ہیں۔۔۔
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *