ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے

ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے
شراب تلخ سہی ایک بار میں کیا ہے
مآلِ کوہکنی بھی نہ ہو سکا حاصل
نجانے حیلہ شیریں شکار میں کیا ہے
جواب کچھ نہ ملے گا مگر سوال تو کر
کہ سوزِ غنچہ و صوتِ ہزار میں کیا ہے
ستم شعار نے خود کتنے زخم کھائے ہیں
کبھی شمار تو کرنا شمار میں کیا ہے
نزاکتوں نے نچوڑا ہے محنتوں کا لہو
نگار خانہٓ شہر و دیار میں کیا ہے
یہ انبساطِ گلستاں یہ ارتعاشِ نسیم
اگرچہ کچھ بھی نہ ہوں اعتبار میں کیا ہے
غبارِ رنگ فضا ہی میں پَر فشاں رہتا
اِس اہتمامِ نشستِ غبار میں کیا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *