ولایت خائباں

ولایت خائباں
بربیرابن سلامہ اور جندب ابن یاسر ساکنان شہر صیدا
“خائبان: کے سب سے عالی شان شہرستاں “اسف آباد” میں
وارد ہوئے تو وہ سرائے سین میں ٹھہرے
“سرائے سین” اک خوش و خوش منظر سرائے ہے
وہ بعد چاشت روزانہ سرائے سے نکلتے اور اسف آباد کے
بازار و برزن میں، خیابانوں میں، کوچوں میں، خرابوں میں
وہاں کی وضع اور اس شہر کے باشندگاں کے حال احوال
اور کیفیتا کی تحقیق کر کے اس کی رویداد کو اپنی بیاضوں میں رقم کرتے
اسف آباد آ کر دونوں یک سرمات اور مبہوت تھے
وہ یوں کہ وہ باہر سے آئے تھے
انہوں نے رہ گزاروں، شاہراہوں پر ہزاروں لوگ دیکھے
تیز رفتار و شتاباں، سست رفتار وخراماں
پر جو صورت سخت حیرت ناک تھی، یہ تھی کہ سب اہل اسف آباد
اک خواب عمیق و جاوداں میں غرق تھے
اور شہر میں اک شور، شور سا معہ آزاد برپا تھا
وہ شور سامعہ آزار اسف آباد کے خوابیدہ گردوں کے
پیاپے بے خلل بے وقفہ خراٹوں کا تھا
وہ ایک موسیقی تھی نادرتر
نہ جانے کتنی صدیوں کی ریاضت کا عطیہ
اور اسف آباد کے خوابیدہ گردوں کا تمامی روزگار
اور دفتر و دیوان کا نظم و نسق
ہر اک نفس کے واردے پر ایک الہامی طریق معجزہ آ سایہ چلتا تھا
یکم شعبان کو بعد غروب آفتاب ابن سلامہ اور جندب ابن یاسر
زندہ بیدار اور اس کے یار اور ہم کاریک دل
سرمدار کافی سے “قہوہ خانہ سرخاب” میں اک خاص طور روبروئی سے ملے
پھر چند لمحوں ہی میں ان کے درمیاں
احساس اور اظہار کے بسیار گو نہ سلسلے تھے جو چلے
“ابن سلامہ اور جندب ابن یاسر” غالباً تم دونوں پہلی بار
اس نادرد ولایت خائباں میں آئے ہو
میں اور میرا یار جانی، جاودانی زندہ بیداراپنے دل کے دل سے
جاں کی جاں سے
تم دونوں کو اپنے شہر میں خوش آمدید جاوداں کہتے ہیں
ہم بھی ایک دن اس شہر میں باہر سے آئے تھے رہا، حعان، ترمد اور بخارا سے
عزیزو! خائباں میں شاید اب تک صرف دو سیاح دانش یار آئے ہیں
بریر ابن سلامہ اور جندب ابن یاسر تم!
مجھے تم سے عجب حیران کن اک بات کہنا ہے، عجب حیران کن اک بات
لیکن تم یقیں کرنا کہ ہم روزانہ وقت فجر جاگ اٹھتے ہیں
اور خوابیدہ گروی کی کسی بھی کیفیت کے ابتلا سے
یک سرہ محفوظ اپنے وقت پر گھر سے نکلتے ہیں
بریر ابن سلامہ اور جندب ابن یاسر ، تم یہ سوچو گے کہ ہم دونوں
بلائے روز شن حوابیدگی کے عارضے سے کس طرح محفوظ ہیں
اور وہ بھی عالی شان شہرستان اسف آباد میں
اور تم یہ پوچھو گے کہ اس کا کیا سبب ہے؟
بات کچھ یوں ہے کہ جب ہم سر زمین خائباں میں آئے تو
فخر جالینوس، بہمن یار قرمزنے
ہمیں اپنی قرابادین خاص الخاص کی اک عجزہ پرور دوادی تھی
اور اس کا نام ہے اکسیر عقلانی
اسے ہم روز وقت فجر استعمال کرتے ہیں
اسی اکسیر کی تاثیر ہے جس کے سبب ہم اس عذابی عارضے ، حوابید روزی
اور اس خوابیدہ گردی کے مرض سے یک سرہ محفوظ ہیں
تم ہی بتاؤ! ہم نے اب تک کوئی خراٹا لیا، کوئی بھی خراٹا؟
یہاں ہر گفتگو، ہر بحث، ہر تقریر، خراٹوں میں ہوتی ہے
اسے تم سر زمین خائباں کا امتیاز خاص ہی کہہ لو
یہ باتیں بھی کہ جانم! تم میری پہلی محبت تو، میں تم پر جان دیتا ہوں
“مجھے ، ہاں مجھے بھی تم سے حد درجہ۔۔”
یہاں بے وقفہ خراٹوں میں ہوتی ہیں
اگر تم بھی یہاں دو اک مہینے تک رہو تو یہ مرض تم کو بھی ہو جائے
ہمیں بھی ابن جندب! تم سے ملنے اور تم سے حرف زن ہونے کی
بے حد آرزو تھی اور کئی دن سے
ہمیں مشہور قصہ گو سلامانی نے تم دونوں عزیزوں کی جو کیفیت بتائی ہے
وہ ظاہر ہے کہ یک سر قابل فہم اور بجا تر ہے
یہاں کا حال ہی افسون واسانہ نما تر ہے
عزیزو! خائباں کے رہنے والوں میں سے
شاید کم سے کم اس کی جو خواہش ہے
وہ خواہش سراسر اور ہی کچھ ہے
وہی جو اپنی خواہش اور دنیا کے ہر اک شائشتہ آدم زاد کی خواہش ہے
پر کیا ہو کہ اپنے خائباں کے مردوزن معمول ہیں اک سحر کے معمول
ان میں سے کوئی خود میں نہیں ہے کوئی بھی
جو بھی ہے، وہ نا خود میں زندہ ہے
رہے باقی، تو وہ سچ مچ پچھل پائے ہیں سچ مچ
اور انہی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، سب کچھ
اور انہیں بے حد ہوس ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بنیاد برباد
اور یک سر درہم افتادہ ولایت خائباں کے سارے باشندے
“درخشاں تر، فروزاں تر” دل و دیں کے خجستہ خواب کی تعبیر
ماضی میں پلٹ جائیں
الٹ جائیں
سو تاریک اندیشہ یہاں کی سادہ دل نسلوں کو جو تعلیم
بے حد پاک دل کن، پاک پندار آفریں
تعلیم دیتے آئے ہیں
وہ یہ ہے یعنی یہ کہ ساری آدمیت کی ہزاروں سال سے لے کر
ہماری نسل تک کی زندگی کا سب سے زریں دور اس ماضی میں گزرا ہے
جو لافانی ہے، لافانی رہے گا اور ہم کو اب
اسی میں زندہ رہنا ہے اگر زندہ ہی رہنا ہے
بریر ابن سلامہ اور جندب ابن یاسر! تم یقیں کرنا
یہاں اجناس کے سر محکمے کے حکم کی رو سے، ہر اک ماکول اور مشروب میں
خواب آور ادویہ کی آمیزش ضروری ہے، نہیں تو پھر سزا ہے
الغرض، مقصد جو ہے، یہ ہے کہ سارے لوگ اپنے ہوش سے عاری رہیں
اور صرف بے ہوشی میں سر گرم اور طرفہ کار، پر احوال، پر اطوار ہوں
اس ماجرا آئیں ولایت کڑی تمامی دانش و بینش، تمامی فرخی فرہنگ
ہر فرو فروزانی، فزیش کا جو سر چشمہ ہے، وہ خوابیدہ روزی اور بس خوابیدہ گردی ہے
فسوں افسانگی، خاموش آوازوں کا شور اور نیم روشن گرد وپیش
ابہام کی سمتیں، ہویلے، تیزہ اندیشی۔۔
کسے معلوم کیا ہے؟ شاید ایسا ہو کہ ساری بود اک خواب و فسون جاودانہ ہو
سبھی کچھ اک فریبانی۔۔ فریبانی۔۔۔ سب کچھ یعنی مطلب یہ کہ
مطلب یہ کہ سب افسانہ ہو۔۔۔ سب کچھ ایک افسانہ
گماں یا درگماں ہا۔۔۔ ایک نزد انز دور اددور بے نام و نشاں ہا۔۔۔۔ ہا
بریر ابن۔۔ بریر ابن۔۔۔ تو اب ہم بھی
تو اب ہم بھی۔۔۔ تو جندب ابن یملیخا۔۔۔ خراخرہا۔۔۔۔ خراخرہا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *