وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہئے ہمیں

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہئے ہمیں
اُس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
چارہ گرو، تمہاری دوا چاہیے ہمیں
پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زبان سے
اک دن جو پوچھ بیٹھیے کیا چاہیے ہمیں
جانا نہیں گھر سے نکل کے کہیں مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتہ چاہیے ہمیں
کہنے کو حق نِگر ہیں حقیقت ہے آرزو
سچ پوچھیے اگر تو خُدا چاہیے ہمیں
ہم موجۂ شمیم کی صورت برہنہ ہیں
تو رنگ بن کے آ کہ رِدا چاہیے ہمیں
اندازۂ صدائے جَرَس سے حُصول کیا
واماندگاں ہیں، دوشِ صبا چاہیے ہمیں
مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب
اے شہرِ اِلتفات، وفا چاہیے ہمیں
ہر آن آخری ہے مگر اس کے باوجود
اس آن بھی یقینِ فنا چاہیے ہمیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *