اپنی گمشدگی کے تختے پر

اپنی گمشدگی کے تختے پر سوچ

کیا ہم نے کسی کو اختیار دے رکھا ہے؟
کہ وہ ہمیں ہماری بے خبری میں تھوڑا تھوڑا کر کے بیچتا رہے
یا ہم سے کچھ پوچھے بتائے بغیر
ہمیں سنگی کتبوں کی طرح دنوں اور مہنیوں کی قبروں پر نصب کرتا چلا جائے
اگر وقتاً فوقتاً ایسا کوئی بھی اختیار ہم نے
کسی کو بھی نہیں دیا
تو پھر گردش کرتی ہوئی زمینوں اور آسمانوں کے درمیان
ریزہ ریزہ کر کے ٹوٹتے ہوئے کیوں دھیاں نہیں رہتا
کہ مورتی تب تک مورتی ہوتی ہے
جب تک ٹوٹنے سے بچی رہے
ورنہ پھر صرف ٹوٹی ہوئی مورتی رہ جاتی ہے
یا پھر اڑتی ہوئی ریت
آرزوؤں کے جال
اور خواہشات کے تانے بانے بُنتے ہوئے ہم
کیوں لاعلم رہتے ہیں؟
کہ انہوں نے تو خود ہمیں کب سے بننا شروع کر رکھا ہے
اپنی گمشدگی کے تختے پر لیٹا سوچ رہا ہوں

فرحت عباس شاہ

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *