ان دروازوں کا کیا کروں

ان دروازوں کا کیا کروں
ان دروازوں کا کیا کروں
جن کے پیچھے رشتوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے خواب
اور تعلق داریوں میں الجھا ہوا احساس
اور وفاداریوں میں محصور تمنائیں
چیخنا چاہتی ہیں،
چیخ چیخ کے پکارنا چاہتی ہیں
پکار پکار کے رونا چاہتی ہیں
رو رو کے آزاد ہونا چاہتی ہیں
اور ان دروازوں کا کیا کروں
جن کے پیچھے دھڑ دھڑاتے ہوئے سینوں میں
وحشتیں چن دی گئی
آرزوؤں کی کھیتیاں بوکے
گھٹن کے سپرد کر دیا گیا ہے
اور ان دروازوں کا کیا کروں، جن کے پیچھے
نہ جانے کون کون سی سرابی
اپنی اپنی بے سائبانی کی راکھ مانگ میں سجائے
اچھے وقت کے انتظار میں پتھر ہو گئی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *