بجلیاں ناچتی ہیں صدیوں سے

بجلیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
آندھیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
سنگ آسا فنا کے ماتھے پر
بستیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
ہجر زادوں کے درمیان کہیں
دوریاں ناچتی ہیں صدیوں سے
ایک ہستی کہ جس کی پوروں پر
ہستیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
ریگزاروں کے گرم سینوں میں
آندھیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
اپنے اپنے نصیب کی لَے پر
لڑکیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
اک کچہری ہے جس میں لوگوں کی
عرضیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
ہاتھ آزاد ہیں تو پیروں میں
بیڑیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
نعرہِ حق جہاں بلند ہوا
سُولیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
ایڑیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
کرچیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
کتنے عاشق ہیں جن کی آنکھوں میں 
کھڑکیاں ناچتی ہیں صدیوں سے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *