بھایا ہے اسے قریہِ معدوم میں رہنا

بھایا ہے اسے قریہِ معدوم میں رہنا
اور میرے لیے بستیِ محکوم میں رہنا
سو رنگ کا انبوہ ہے ہر رنگ میں موجود
مشکل ہے بہت عالمِ معلوم میں رہنا
اک پل بھی نمایاں ہوئے اور جاں سے گئے بھی
اچھا ہے یہاں لمحہِ موہوم میں رہنا
چالاک زمانے سے جو آ بیٹھے ہو دل میں
کیسا ہے بھلا بستیِ معصوم میں رہنا
اس دل کو تو عادت ہے غم و رنج و الم کی
چھوڑے گا کہاں حالتِ مغموم میں رہنا
سو طُرفہ قناعت کا ہنر آتا ہے ہم کو
آتا ہے ہمیں صبر سے مقسوم میں رہنا
اک نیستی رہتی ہے سدا مدِ مقابل
ہستی تو ہے اک عرصہِ موہوم میں رہنا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *