ترے ناک نقشے کے جال سے نہ نکل سکا

ترے ناک نقشے کے جال سے نہ نکل سکا
میں کبھی ترے خدو خال سے نہ نکل سکا
مری آنکھیں خشک نہ ہو سکیں کبھی عمر بھر
مرا دل تمہارے ملال سے نہ نکل سکا
مری ضد پہ سایا سا لوٹتا ہے مری طرف
یہ وجود تیرے وصال سے نہ نکل سکا
کبھی سوچتا ہوں میں اپنے آپ کو دیکھ کر
کہ یہ شخص خواب و خیال سے نہ نکل سکا
ترے ساتھ بیتا ہوا زمانہ عجیب تھا
کبھی لمحہ بھر مرے حال سے نہ نکل سکا
میں ترے لیے کوئی چال سوچتا کس طرح
میں تو خود ہی وقت کی چال سے نہ نکل سکا
کوئی پل نکل نہ سکا جدائی کی شام سے
کوئی دن فراق کے سال سے نہ نکل سکا
وہ زمانہ مجھ سے جواب مانگے گا کس طرح
جو زمانہ میرے سوال سے نہ نکل سکا
کوئی اک بھی صورت حال سے نہ نکل سکا
تو عروج سے میں زوال سے نہ نکل سکا
میں خود آپ اپنی ہی قید میں ہوں کسی جگہ
میں خود آپ اپنے کمال سے نہ نکل سکا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *