جا بچھڑ جا وصل کے موسم

جا بچھڑ جا وصل کے موسم
جا بچھڑ جا
وصل کے موسم بچھڑ جا
یہ اچنبھا تو نہیں ہے
اور نہ انہونی کوئی اس میں چھپی ہے
چاند تاروں اور زمینوں کا سفر بھی
اور سورج کا بھٹکنا بھی
وصال و ہجر کی اک شکل ہے اور
یہ تنفس کا عمل
دوران خوں کی ہر مسافت
لمس
بینائی
سماعت
کون ہے جو مل کے پھر بچھڑا نہیں ہے
آج اگر تو بھی مری اپنائیت کی روح کو
اور مری دیوانگی کے دل کو
آدھا آدھا کر کے، کاٹ کے
خود کو مرے معصوم جذبوں سے علیحدہ کر رہا ہے
تو نہ انہونی کوئی اس میں چھپی ہے
اور نہ حیرت کا کوئی پہلو نکلتا ہے
بچھڑ جا
وصل کے موسم بچھڑ جا
ایک دن آخر تمہیں ہم سے بچھڑنا تھا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *