جدائی کی طرح لمحے بھی کانٹے بن کے چبھتے ہیں

جدائی کی طرح لمحے بھی کانٹے بن کے چبھتے ہیں
جدائی کی طرح رسمیں بھی رستے سے نہیں ہٹتیں
تمہارے تذکرے میں تھے مقامات سخن ایسے
وہاں ہم یوں رکے جیسے کوئی ساون سے ڈرتا ہو
کناروں کے کنارے پر کوئی بستی بسانی تھی
ہمارے اشک پلکوں پر ٹھہر کر سوچتے رہتے
تمہیں ملنا ضروری تھا یا شاید بے قراری تھی
ہم اپنے آپ کو دھوکے میں رکھ کر دوڑ پڑتے تھے
ہمارے حوصلے تو نیند کےعالم میں اکثر ہی
تمنا کے در و دیوار سے ٹکراتے رہتے تھے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *