دیکھ کر دور اسے ایسے پکارا میں نے

دیکھ کر دور اسے ایسے پکارا میں نے
جس طرح دل میں کوئی خواب اتارا میں نے
پہلے اشکوں سے کیا درد کا صحرا سیراب
پھر تری یاد کو جنگل سے گزارا میں نے
رات بھر چہرہ ترا بھیگتی آنکھوں میں رہا
چاند دیکھا نہ مری جان ستارا میں نے
کیا بتاؤں ترے یکلخت بچھڑ جانے پر
کتنی مشکل سے دیا خود کو سہارا میں نے
میں جو نکلا ہی نہیں دکھ کے سمندر سے کبھی
خواب میں دکھا ترے ساتھ کنارا میں نے
رات کے صحن میں لہرا کے دیا یادوں کا
اس کی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارا میں نے
ورنہ یہ لوگ کہاں ملنے کے لائق تھے مرے
تیری خاطر کیا ہر شخص گوارا میں نے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *